حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عراق و افغانستان میں سابق ایرانی سفیر حسن کاظمی قمی نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ امریکہ کی ثقافتی اقدار کو نظر انداز کرنے کی پالیسی خطے میں اس کی مسلسل شکستوں کی وجہ بنی ہے، امریکہ کی نیابتی جنگیں مغربی ایشیا میں اس وقت شروع ہوئیں جب عراق میں مغرب کی ناکامی کے آثار ظاہر ہوئے۔
حزب اللہ نیابتی جنگ نہیں لڑی رہا ہے
حسن کاظمی قمی نے کہا کہ خطے میں تمام مزاحمتی تحریکیں بیرونی جارحیت کے خلاف عوامی جدوجہد سے وجود میں آئیں، جیسے حزب اللہ لبنان، جس نے عوامی مزاحمت سے جنم لیا اور اسلامی جمہوریہ ایران نے اس کی حمایت کی، لیکن یہ ایران کی تخلیق نہیں تھی۔
تکفیری گروہوں کا مقصد صرف عراق اور شام نہیں
انہوں نے کہا کہ ہم استکبار اور عالمی صہیونیت کی جامع سازش کا سامنا کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں اور تکفیری گروہ صرف عراق یا شام کے لیے نہیں بنائے گئے، بلکہ یہ مغربی ایشیا کے نئے منصوبے کا حصہ ہیں۔ اگر مزاحمت کے کسی مرکز پر حملہ ہو تو پورے محاذ کو دفاع کرنا ہوگا۔
ترکی اور شام کے درمیان تنازعہ کا امکان
انہوں نے کہا کہ عنقریب ترکی اور شام کے نئے حکمرانوں کے درمیان تنازعہ شروع ہوگا، کیونکہ ترکی شام کے کچھ علاقوں پر تاریخی دعوے رکھتا ہے۔ یہ مسئلہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان بھی چیلنج پیدا کر سکتا ہے۔
ایران اور مزاحمتی محاذ کی پوزیشن
حسن کاظمی قمی نے وضاحت کی کہ جہاں بھی اسلامی جمہوریہ ایران نے کسی حکومت یا قوم کا دفاع کیا ہے، وہاں قومی مفادات بھی شامل رہے ہیں۔ دشمن نے پورے خطے کے لیے متحدہ سازش تیار کی ہے، اور ایران ان سازشوں کے مرکز میں ہے۔
امریکہ کے خلاف مزاحمت کی ضرورت
انہوں نے کہا کہ امریکہ کا بغض اسلامی جمہوریہ سے زیادہ ایرانی عوام کے خلاف ہے، کیونکہ انقلاب اسلامی عوام کی تحریک تھی جس نے امریکہ کی کھوکھلی ہیبت کو توڑا۔ امریکہ پرانے ایران کی واپسی کے سوا کسی چیز پر راضی نہیں ہوگا، اور بات چیت سے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
شام میں داخلی جنگ اور داعش
انہوں نے پیش گوئی کی کہ شام میں موجود گروہوں اور داعش کے درمیان داخلی جنگ ناگزیر ہے، جو ان سب کی قوت کو کمزور کرے گا، حتیٰ کہ وہ ممالک جو ان گروہوں کے حامی ہیں، اس کشمکش میں پھنس جائیں گے، جن میں ترکی بھی شامل ہے۔
آپ کا تبصرہ